سانحہ جلیان والا باغ کی ایک صدی مکمل ہونے پر اسلامک سنٹر میںمنعقد مذاکرے میں علماء و دانشوروں کااظہار خیال
لکھنؤ۔سانحہ جلیان والا باغ کی ایک صدی مکمل ہونے پر اسلامک سنٹر آف انڈیا فرنگی محل کے تحت ایک مذاکرہ ہوا۔ اس مذاکرے کی صدارت کرتے ہوئے امام عیدگاہ لکھنؤمولانا خالد رشید فرنگی محلی ناظم دارالعلوم فرنگی محل نے کہ اکہ وطن عزیز کی تاریخ کے ناقابل فراموش دنوںمیں سے ایک یعنی جلیان والا باغ قتل عام کی آج ایک صدی مکمل ہوئی۔ آج ہی ۱۳؍ اپریل ۱۹۱۹ء کو ظالم انگریز بریگیڈیر جنرل ریجی نالڈ ڈائر نے جلیان والا باغ امرتسر (پنجاب) میں بیساکھی کے موقع پر جمع ہزاروں نہتے اور پر امن مظاہرین پر بے دریغ فائرنگ کرواکر موت کی نیند سلادیا تھا۔ یہ ہندوستانی مظاہرین اس وقت کے قومی قائدین ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پا ل کی ظالمانہ گرفتاری کے خلاف پر امن احتجاج کررہے تھے۔مولانا فرنگی محلی نے کہا کہ اس قتل عام سے ہر محب وطن ہندوستانی تڑپ اٹھا۔ اس دور کے علمائے کرام اور قائدین قوم وملت ستخت متفکر ہوئے کہ ان پر آشوب حالات میںکیا کرنا چاہیے؟ انگریزوں کی اس ظالمانہ اور وحشیانہ کارروائی سے تحریک خلافت اور جمعیۃ علماء کے روح رواں مولانا عبدالباری فرنگی محلی بے حد متاثر ہوئے۔ انہوںنے غاصب برطانوی حکومت کے خلاف سخت موقف اختیار کیا۔ انہوں نے انگریزوں کے خلاف مہاتما گاندھی کی ’’تحریک ترک موالات‘‘ (Non Cooperation Movement)کا کھل کر ساتھ دیا۔ مولانا کے اس تعاون کا ذکر گاندھی جی نے اپنی آپ بیتی ’’تلاش حق‘‘ کے بیالیسویں باب ’’چڑھتادریا‘‘ میں یہ کیا ہے:’’علی برادران کی شروع کی ہوئی تحریک خلافت شباب پر تھی۔ مجھ سے مولانا عبدالباری مرحوم اور دوسرے علماء سے اس کے متعلق طول طویل بحثیں ہوا کرتی تھیں۔خصوصاً یہ مسئلہ در پیش رہتا تھا کہ ایک مسلمان کس حد تک عدم تشدد کا پابند رہ سکتا ہے۔ آخر سب علماء اس بات پر متفق ہوگئے کہ اسلام میں عدم تشدد، پالیسی کے طو رپر اختیار کرنے کی ممانعت نہیںہے بلکہ جتنے عرصے کے لیے مسلمان اس پالیسی کو برتنے کا عہد کرلیں اتنے دنوں اس کی پابندی ان پر فرض ہے۔‘‘مولانا خالد رشید نے کہا کہ مولانا عبدالباری نے یہ اعلان کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ انگریزوں کے خلاف تحریک ترک موالات کے پلیٹ فارم پر ہندو مسلم کو متحد ہونا پڑے گا۔اس بات کاذکر مہاتما گاندھی نے اپنے ایک مکتوب کے ذریعے اپنی کتاب Gandhi speak on Non Cooperative UP میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ گاندھی جی اپنی آپ بیتی میں یہ بھی تحریر کیاہے کہ مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے ہندو مسلمانوں کی مشترکہ خلافت کانفرنس دہلی میں اپنی تقریر میںکہا’’خواہ ہندو ہماری مدد کریں خواہ نہ کریں، مسلمانوں کو اپنے برادران وطن کے جذبات کالحاظ کرکے گائو کشی ترک کردینا چاہیے۔‘‘ (باب ۳۶، تلاش حق)مولانا خالد رشید نے کہاکہ مولانا عبدالباری فرنگی محلی ہندو مسلم اتحاد پر بہت زور دیتے تھے۔ وہ مذہبی ہم آہنگی، قومی یک جہتی، باہمی رواداری اور آپسی بھائی چارے کے زبردست مبلغ تھے۔ ان پر جلیان والا قتل عام کا بہت اثر ہوا۔ برطانوی حکومت کی اس انسانیت سوز اور وحشیانہ کارروائی کو انہوں نے معاف نہیںکیا ۔مولانا نعیم الرحمن صدیقی مہتمم دارالعلوم فرنگی محل نے کہا کہ ہمارے ملک کو اس وقت اسی اتحاد، یک جہتی اور بھائی چارے کی سخت ضرورت ہے۔ جس پر عمل کرکے ہمارے اکابر واسلاف نے وطن عزیز کو برطانوی قبضے وتسلط سے آزاد کرایا ہے۔اس موقع پر پیر زادہ شیخ راشد علی مینائی سجادہ نشین درگاہ مخدوم شاہ مینا شاہ لکھنؤ نے کہا کہ مولانا عبدالباری فرنگی محلی ہندو مسلم اتحاد پر بہت زور دیتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ برادران وطن میں بھی بہت مقبول تھے۔
المزيد من القصص
پٹنائک کاغذ کی مدد کے بغیر اوڈیشہ کے اضلاع کے نام بتائیں: مودی
کانگریس۔ سپا کا کردار رام اور ملک مخالف کا:یوگی
کانگریس چھوڑنے والے لیڈر کا انکشاف ‘شہزادے ’ کا ارادہ رام مندر پر سپریم کورٹ کےفیصلہ کو بدلنے کا: مودی