نئی دہلی۔ (یو این آئی) نیرج چوپڑا نے جب 2020 ٹوکیو اولمپک میں جیولین تھرو کا گولڈ میڈل جیتا، تو انہوں نے ایسا کرنے والے پہلے ہندوستانی ٹریک اینڈ فیلڈ ایتھلیٹ کے طور پرتاریخ رقم کی۔ ہندوستان نے بھلے ہی 12 سال کے طویل انتظار کے بعد گولڈ میڈل جیتا تھا، لیکن ملک کی یہ بڑی حصولیابی بڑے پردے پر بہت چھوٹی نظر آئی۔ٹوکیو اولمپک میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے امریکہ نے 39 طلائی سمیت 113 تمغے جیتے تھے ۔ کل 42 ممالک نے کم از کم دو طلائی تمغے جیتے ، جبکہ ہندوستان کل تمغوں کے لحاظ سے 93 ممالک کی فہرست میں 48 ویں نمبر پر تھا۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ایک ارب سے زیادہ امیدوں اور خوابوں کا ملک کیسے پیچھے رہ گیا؟ اس سوال کا جواب بڑوں کے ایک انعقاد سے بہت پیچھے چھپا ہے ۔اسپورٹس فار آل (ایس ایف اے ) کے بانی رشیکیش جوشی نے یواین آئی کو بتایا، ہندوستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری آبادی ایک ارب سے زیادہ ہے ،
لیکن ہم اولمپکس میں خاطر خواہ تمغے نہیں جیت پاتے ۔ اگر ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا ہے تو ہمیں نچلی سطح پر جانا ہوگا۔ ہمیں اسکول کے کھیلوں کے لیے سنجیدہ ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔رشیکیش نے کہا کہ ہندوستان کے اولمپک میں بڑا کارنامہ انجام دینے میں ناکام رہنے کی ایک وجہ بچوں کے لئے کھیل کے کلچر کا نہ ہونا ہے ۔ رشیکیش نے کہا، جب میں نے اور وشواس (وشواس چوکسی، ایس ایف اے کے بانی) نے اسکول سطح پر کرکٹ کھیلنا شروع کیا، تو ہمیں احساس ہوا کہ بین الاقوامی کھیل وقت کے ساتھ بہت بدل گیا ہے ۔ اس کے برعکس، نئی ٹیکنالوجیزآنے کے باوجود ہندوستان میں اسکولی کھیلوں میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ ہم نے محسوس کیا کہ اسکول کے کھیلوں کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔نتیجے کے طور پر، رشیکیش اور وشواس نے ‘اسکولی کھیلوں کو تبدیل کرنے ‘ کے مقصد سے اسپورٹس فار آل کا آغاز کیا، جو ہندوستان کی سب سے بڑی ملٹی-اسپورٹ چیمپئن شپ ہے ۔رشیکیش نے کہا، اسکولوں کو ان دنوں نہیں معلوم کہ ان کے پاس کیا ہے ۔ ہم نے محسوس کیا کہ اگر ہم اسکولوں کے لیے اولمپک طرز کا ایونٹ شروع کریں تو ہم بہت سے ٹیلنٹ کو اکٹھا کر سکتے ہیں۔وشواس نے بتایا کہ ایس ایف اے چمپئن شپ فی الحال چار شہروں میں منعقد کی جارہی ہے ۔ ہر چیمپئن شپ میں تقریباً 15000 بچے حصہ لے رہے ہیں۔ ایس ایف اے کا مقصد ایک ایسا کلچر بنانا ہے جو اولمپک سطح کے کھلاڑی پیدا کرے ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایس ایف اے پورے ملک میں اپنے پاؤں پھیلا رہا ہے ۔رشیکیش نے کہا، ‘‘ہم 2028 تک 50 شہروں تک پہنچنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
ہمیں ہر کھیل کے لیے ہندوستان میں بہترین اسکول تلاش کرنا ہوگا، تاکہ ہم بہترین ٹیلنٹ کو سامنے لا سکیں۔ اگر ایک ہی پلیٹ فارم پر دو لاکھ بچے آجائیں تو یہ ہندوستان کا انمول اثاثہ ہوگا۔انہوں نے کہا، [؟]اگر آپ امریکہ کو دیکھیں تو ان کے پاس کالج چیمپئن شپ (نیشنل کالج ایتھلیٹکس ایسوسی ایشن چیمپئن شپ) ہے ۔ ہم ہندوستانی اسکولوں کے لیے بھی یہی چاہتے ہیں۔عالمی معیار کے ایتھلیٹ تیار کرنے کی بات کہنا آسان ہے ، کرنا مشکل۔ رشیکیش جانتے ہیں کہ ہندوستانی ایتھلیٹ کا جسم دوسرے کھلاڑیوں سے مختلف ہے ، لیکن ایک ایتھلیٹ کے لئے بڑا مسئلہ یہ نہ جاننا ہے کہ کون سا کھیل اس کے جسمانی قسم کے مطابق ہے ۔ رشیکیش کے مطابق اس مسئلے کا حل اعداد و شمار میں مضمر ہے ۔رشیکیش نے کہا، ”ہمارے پاس زمینی سطح پر کھیلوں کا کلچر نہیں ہے ۔ زیادہ تر بچے صرف ایک ہی کھیل کھیلتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کی ذہنی اور جسمانی طور پر نشوونما کے لیے ‘ملٹی اسپورٹس’ کلچر کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا، ‘‘تعلیم میں بھی یہی ہو رہا ہے ۔ ہم بچے کو سب کچھ پڑھاتے ہیں اوروہ پختہ ہونے پر ایک ہی مضمون کا انتخاب کرتا ہے ۔ہے یہ کھیلوں میں بھی ہونا چاہیے ۔ ہمارے پلیٹ فارم پر ایک بچہ چند برسوں تک تمام کھیل کھیلے گا اور پھر ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس کا جسم کس کھیل کے لیے زیادہ موزوں ہے ۔رشیکیش نے کہا، ڈیٹا اینالیٹکس اس میں بڑا کردار ادا کرے گا۔ بچوں کو اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکے گا(کس کھیل کا انتخاب کرنا ہے ) جب تک ہم ان کی رہنمائی نہیں کریں گے ۔ ہم ایک بچے کو تمام کھیلوں کا تجربہ دینا چاہتے ہیں اور اعدادوشمار کے ذریعے صحیح ٹیلنٹ کو صحیح کھیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ایس ایف اے کا خیال ہے کہ اعداد و شمار نہ صرف بچے کو صحیح کھیل کا انتخاب کرنے میں مدد کریں گے بلکہ اس میں بہتر بھی ہوں گے ۔ بشواس نے کہا کہ اگلے پانچ برسوں میں ان کے پاس یہ دیکھنے کے لیے کافی ڈیٹا ہوگا کہ کون سے شہر کسی خاص کھیل میں مہارت رکھتے ہیں۔ ایک ثقافت جو اپنے آپ کو مسلسل بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرتی ہے ، امید ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر کامیاب ہوگی۔
المزيد من القصص
مود ی کے میعاد کار میں ملک میں کھیل سرگرمیوں کو نئی رفتار ملی:یوگی
پاکستان بڑے اسٹیج پر ایک بار پھر ناکام
کولمبو میں سراج کا ‘راج، ہندوستان آٹھویں بار ایشیا کپ چیمپئن