Kaumikhabrein.com

ہندی خبریں، ہندی میں تازہ ترین خبریں بریکنگ نیوز اور تازہ ترین ہیڈ لائن

مشہور دکنی شاعرگلی نلگنڈوی کی شاعری اپنے عہد کی ترجمان

حیدرآباد4اپریل(یواین آئی) دکنی شاعری ہر دور میں اپنے علاقہ کی ترجمان رہی ہے کیوں کہ یہ مقامیت سے پرُ ہوتی ہے جس میں زندگی سے جڑی سچائیوں کو نہایت پرتکلف انداز میں پیش کیا جاتا ہے مگراہلِ زبان اور اہل شمال نے کبھی بھی دکنی شاعری کو معیاری شاعری تصور نہیں کیا ‘یہی وجہ ہے کہ آج یہ ایک مخصوص علاقہ تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ گنگاجمنی تہدیب کے فروغ میں دکنی شاعری نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ چاہے وہ اعجاز حسین کھٹا ہوں یا علی صائب میاں‘ سرور ڈنڈا‘ سلیمان خطیب‘ نذیردہقانی‘ حمایت اللہ یا پھر گلی نلگنڈوی ہوں سبھی نے دکن کی علاقائی تہذیب وثقافت کو نہ صرف اپنی شاعری کے ذریعہ فروغ دیا بلکہ ان کے کئی فن پاروں کو اسٹیج پر بھی پیش کیا گیا۔ علاوہ ازیں دکنی ادب اردو شعرو سخن کا وہ روشن باب ہے‘ جسے ہر گز فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ ان خیالات کا اظہارسینئر صحافی سید علی حیدر رضوی نے اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ ہفتہ روزہ ’ترکشِ ہند‘ کے زیر اہتمام ’دکنی ادب‘ گلی نلگنڈوی کی شاعری‘ کے عنوان سے اردو گھر مغل پورہ حیدرآباد میں’یادگلی نلگنڈوی‘ ادبی اجلاس اور مزاحیہ مشاعرہ کا انعقاد عمل میں آیا جس میں مہمانان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر ایس اے شکور ‘ سابق سکریٹری وڈائریکٹر اردو اکیڈیمی تلنگانہ‘ باقر مرزا سابق پی آئی بی آفیسر ‘ ڈاکٹر م ۔ق۔ سلیم‘ صدر شعبہ اردو شاداں کالج اور محمد ریاض احمد‘صدر ایچ یو جے نے شرکت کی۔ علی حیدر رضوی نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ آج وقت آچکا ہے کہ ہم اپنے زمین سے جڑے فن کاروں کی اہمیت کو سمجھیں اوران کی تخلیقات کو وقعت کی نگاہوں سے دیکھا جائے ان پر تحقیقی وتنقیدی مضامین لکھے جائیں۔رسائل واخبارات میں گوشے وشمارے شائع کئے جائیں۔تب ہی انہیں بھر پور خراج پیش کیا جاسکے گا۔ اس موقع پر ترکشِ ہند کے مدیر طاہر رومانی نے کہا کہ فری پریس ایڈیٹرس اینڈ جرنلٹس فیڈریشن گذشتہ دوسال سے اردو صحافی برادری کیلئے مشاعرے اور مختلف ادبی پروگراموں کا انعقاد عمل میں لارہا ہے جس کا واحد مقصد صحافیوں کی ادبی صلاحیتوں کو منظر عام پر لانے کے ساتھ فروغ دینا ہے۔ انہو ں نے گلی نلگنڈوی پر ادبی اجلاس کے انعقاد پر اور اس کی غیر معمولی کامیابی پر تمام معاونین سے اظہارتشکر کیا اور آئندہ بھی اس طرح کے تعاون کو برقرار رکھنے کی خواہش کی۔ اجلاس سے ہم کلا م ہوتے ہوئے پروفیسر ایس ۔ اے شکور نے کہا کہ دکنی شاعری بہت دل نگیں ہوتی ہے۔ گلی نے اسے دکنی کلام کے ذریعہ اس دور میں ایک تہلکہ مچادیا تھا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے فنکاروں کو پھر سے یاد کیاجائے اور ان کے کلام وفکر پر مضامین ومقالے پڑھے جائیں ۔ادبی اجلاس کو مخاطب کرتے ہوئے سابق انفارمیشن آفیسر ‘ پی آئی بی‘ باقر مرزا نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ گلی نلگنڈوی کے انتقال کے کافی دنوں بعد انہیں کسی تنظیم کی جانب سے یاد کیا جارہا ہے جو قابل تقلید اقدام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دکنی شاعری بڑی نمکین شاعری ہوتی ہے جس میں دکن کا سانو لا پن تو ہوتا ہی ہیں ساتھ میں لہجہ کی روانی بھی بڑی دل پذیر ہوتی ہے۔ بلاشبہ گلی دکنی شاعری کا بڑا نام ہے۔ محفل سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر م ۔ ق ۔ سلیم نے نہایت تفصیل کے ساتھ دکنی ادب کی تاریخ پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس موقع پر برملا اظہار کیا کہ مغلیہ سلاطین نے دکنی تہدیب کو پھلنے اور پھولنے نہیں دیا ورنہ آج دکنی ادب برصغیر کی شناخت بن جاتا۔ انہوں نے کہا کہ دکنی شاعری میں بڑی بے تکلفی ہوتی ہے جس میں بالکل سیدھے سادہ انداز میں مدعا بیان کیا جاتا ہے۔ گلی نلگنڈوی دکنی شاعری کا ایک ایسا نام ہے جس نے اپنے عہد کی بجا طور پر ترجمانی کی اور یہاں کے سماجی وسیاسی ‘ تہدیبی وثقافتی موضوعات کو اپنی شاعری کا سرنامہ بنایا۔ موصوف نے گلی کے چیدہ چیدہ اشعار پیش کرتے محفل کو زعفران زار بنادیا۔ اس موقع پر ریاض احمد‘ صدر ایچ ۔ یو ۔ جے نے اپنے خطاب میں کہا کہ گلی نلگنڈوی سرزمین حیدرآباد کے استاد شاعر نظیر علی عدیل کے شاگرد تھے ۔شاعری کے علاوہ گلی نے پیشہ تدریس کو بھی اختیارکیا تھا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ریاستی اردو اکیڈیمی ان کی یاد میں آج تک کوئی ایوارڈ قائم نہیں کرسکی ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جلد از جلد اس کی تلافی کی جائے۔ ادبی اجلاس کو مخاطب کرتے ہوئے سنیئر صحافی شوکت علی خان نے کہا کہ گلی نلگنڈوی دکنی شاعری کا ایک معتبر نام ہے اردو اکیڈیمی کو چاہئے کہ ان کے کلام کو بڑے اہتمام سے نہ صرف شائع کرے بلکہ ان پر ایک ادبی اجلاس کو بھی منعقد کیاجائے۔ اس موقع پر ڈاکٹر ناظم علی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اہل دکن پر ہمیشہ شمالِ ہند کو فوقیت دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہمارے نصاب سے مقامی شعراء اورادباء کی تخلیقات غائب ہوگئیں۔ انہوں نے ریاستی حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ دکن کے شعراء وادباء کو نصاب میں خاطر خواہ جگہ دی جائے تاکہ یہاں طلبہ اپنی سرزمین سے جڑے فن کاروں کے فن پاروں سے کماحقہ واقف ہوسکیں۔بزرگ شاعر تجمل اظہر نے گلی نلگنڈوی کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’انجمن معماران ادب‘‘ کے زیر اہتمام ان کے عین حیات میں ’گلی نلگنڈوی نائٹ‘ کا انعقاد عمل میں لایا گیا تھا جس میں گلی خود بہ نفس نفیس موجود تھے۔ ان کے علاوہ گلی کے ایک اور ساتھی اسد الرحمن ظفر‘ آسٹریلیا نے بھی مختلف اشعار کے ذریعہ گلی کو بھر پور خراج پیش کیا۔بعد ازاں سید شاہ نور الحق قادری‘ سابق صدرنشین اردو اکیڈیمی اے پی کی زیر صدارت مزاحیہ مشاعرہ منعقد ہوا جس میں فرید سحر‘ شاہد عدیلی‘ ڈاکٹر معین امر بمبو‘ حامد سلیم (بیدر شریف)‘ لطیف الدین لطیف‘ وحید پاشاہ قادری‘ اکبر علی خان احسن‘ ہنس مکھ حیدرآبادی ودیگر نے عصری موضوعات پر کلام پیش کیا۔اس موقع پر تمام مہمانان خصوصی کوشال پوشی کی گئی جبکہ ایس ایس کے حسینی اقبال جنہیں حال ہی میں تلنگانہ ورکنگ جرنلسٹ فیڈریشن کی جانب سے چھوٹے اخبارات کے مدیران کے زمرہ میں فیض محمد اصغر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا‘ ان کی خصوصی طورپر گل پوشی وشال پوشی کی گئی۔رات دیر گئے تک شائقین طنزومزاح نہایت دل جمعی کے ساتھ اس ادبی اجلاس ومشاعرہ میں شریک رہے۔ایک عرصہ بعد اردو گھر مغل پورہ میں سامعین کی اتنی بڑی تعداد دیکھی گئی۔ ادبی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر جہانگیر احساس نے کی جب کہ ممتاز مزاحیہ شاعر منور علی مختصر نے مشاعرہ کی کارروائی چلائی۔ ریسرچ اسکالر سید عبدالعزیز نے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انتظامات میں حصہ لیا۔ آخر میں آصف علی ‘معتمد عمومی فیڈریشن کے ہدیہ تشکر پر محفل کو برخواست کرنے کا اعلان کیاگیا۔