Kaumikhabrein.com

ہندی خبریں، ہندی میں تازہ ترین خبریں بریکنگ نیوز اور تازہ ترین ہیڈ لائن

ساکشی ملک :اولمپک تمغہ جیتنے والی پہلی ہندستانی ریسلر، آنے والی نسلوں کے لیے ایک رول ماڈل بھی

نئی دہلی۔ (یو این آئی) کھیلوں کے شعبوں میں ہندستانی مرد و خاتون کھلاڑی ہمیشہ سے ہی ملک کا نام روشن کرتے آئے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ہمارے ملک کی خواتین کسی بھی شعبے میں مردوں سے پیچھے رہی ہوں۔ ان کی نمائندگی ،ان کی کامیابیوں اور ان کے کارناموں نے ہر زمانے میں ملک کا پرچم بلند کیا۔ کوئی بھی شعبہ ایسا نظر نہیں آتا جس میں ہمارے ملک کی خواتین نے بڑھ چڑھ کا حصہ نہ لیا ہو۔ اسپورٹس کے شعبے میں تو ناقابل فراموش کارنامے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ساکشی ملک بھی ان ہی نامور خواتین کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے پہلوانی کے شعبے میں اولمپک میں تمغہ جیت کر ملک کا وقار بلند کیا۔ ساکشی ملک ایک پیشہ ورفری اسٹائل ریسلر ہیں۔ انہوں نے برازیل کے ریو ڈی جنیرو میں سال 2016 کے سمر اولمپکس میں کانسہ کا تمغہ جیتا تھا۔ وہ ہندوستان کے لیے اولمپک تمغہ جیتنے والی پہلی خاتون پہلوان ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے گلاسگو میں منعقدہ 2014 کے دولت مشترکہ کھیلوں میں ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہوئے چاندی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔

روہتک کے قریب موکھڑا گاؤں کے ایک خاندان میں 3 ستمبر 1922 کو پیدا ہونے والی ساکشی نے بچپن میں کبڈی اور کرکٹ کھیلی لیکن کشتی ان کا پسندیدہ کھیل رہا۔۔ساکشی کے والد سکھبیر ملک جاٹ ڈی ٹی سی میں بس کنڈکٹر میں ملازمت کرتے ہیں اور ان کی والدہ سدیش ملک آنگن واڑی ورکر ہیں۔ ساکشی کے دادا بڈھالورام علاقے کے مشہور پہلوان رہ چکے ہیں۔ ساکشی بچپن میں اپنے دا دا کو پہلوانی کرتے دیکھا کرتی تھیں ۔ پھر ساکشی بھی اپنے دادا کی طرح پہلوان بننے کاخواب دیکھنے لگیں۔ اس وقت ان کے والدین یا خود ساکشی کو بھی اس بات کا علم نہیں ہورہا ہوگا کہ وہ ایک دن اولمپک تمغہ جیتنے والی ہندوستان کی پہلی خاتون پہلوان بن جائیں گی۔ساکشی نے 12 سال کی عمر میں ریسلنگ کی تربیت لینی شروع کردی تھی۔ساکشی دن میں تقریباً چھ سے سا ت گھنٹے پہلوانی کی مشق کیا کرتی تھیں۔ وزن کو کنٹرول کرنے کے لیے انہیں بہت سخت محنت کی۔ ساکشی کو ٹریننگ کے دوران کئی چیلنجز اور تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا۔ رشتہ داروں کے علاوہ آس پڑوس کا ہر کوئی شخص یہ کہتا تھا، یہ کھیل لڑکیوں کے لیے نہیں ہیں۔ لیکن ساکشی اور ان کے گھروالوں نے ان سب باتوں پر توجہ نہیں دی ۔ ان تمام تنقید اور چیلنجز کے باوجود ساکشی کے گھر والوں نے ان کا مکمل ساتھ دیا اور وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کھڑے رہے ۔ان کے کوچ ایشور دہیا کی بھی وہاں کے لوگوں نے مخالفت کی، کیونکہ وہ ساکشی کو اپنے ماتحت نے روہتک کے اکھاڑہ میں واقع چھوٹو رام اسٹیڈیم میں ٹریننگ دے رہے تھے ۔ ان کے کوچ نے ساکشی کو ریاستی اور بین الاقوامی سطح پر کھیلنے کے تمام باریکیاں اور نکات بتائے اور ساکشی کو ایک باقاعدہ پروفیشنل ریسلر بنادیا۔ پہلے وہ مقامی مقابلوں میں حصہ لیتی رہیں اس کے بعد پھر ملک میں منعقد ہونے والے کئی مقابلوں میں حصہ لیا اور فتح کے جھنڈے گاڑتی رہیں۔ سال 2010 میں جونیئر ورلڈ چیمپئن شپ میں بین الاقوامی سطح پر،ساکشی نے اپنی زندگی کا پہلا کھیل کھیلا۔ یہاں انہوں نے 58 کلوگرام زمرے میں کانسہ کا تمغہ جیتا۔اس فتح کے بعد ساکشی سرخیوں میں آگئیں اور سال 2014 میں بین الاقوامی سطح پران کو ایک نئی پہچان ملی، جب ساکشی نے ڈیو انٹرنیشنل ریسلنگ ٹورنامنٹ میں 60 کلوگرام زمرے میں گولڈ میڈل جیتا ۔ سال 2011 میں ساکشی نے جونیئر نیشنل چیمپئن شپ میں طلائی تمغہ جیتا۔اس کے بعد سال 2011 میں ہی جکارتہ میں منعقدہ جونیئر ایشین چیمپئن شپ میں انہوں نے کانسہ کا تمغہ حاصل کیا۔ گونڈا میں سینئر نیشنل چیمپئن شپ میں 2011 میں ہی انہوں نے چاندی کا تمغہ جیتا۔سال 2011 میں آل انڈیا یونیورسٹی، سرسا میں گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔ پھر 2012 – جونیئر نیشنل، دیوگھرمیں ایک اور گولڈ میڈل کی حق دار بنیں۔ جون 2012 میں ایشیائی، قازقستان مقابلے میں انہیں پھر طلائی تمغہ ملا۔ اسی سال سینئر نیشنل، گونڈا میں کانسہ، آل انڈیا یونیورسٹی امراوتی مقابلہ میں گولڈ، 2013 – سینئر نیشنل، کولکتہ میں طلائی، 2014 – آل انڈیا یونیورسٹی، میرٹھ کے مقابلے میں طلائی تمغہ حاصل کیا۔ساکشی نے ریو اولمپکس میں ہندوستان کو پہلا کانسہ کا تمغہ دلاکر ملک کا نام روشن کیا۔ ساکشی ایک فری اسٹائل ریسلر ہیں، جنہوں نے 58 کلوگرام زمرے میں کانسہ کا تمغہ جیتا ۔

اس کے ساتھ ہی ساکشی اولمپکس میں تمغہ جیتنے والی پہلی ہندوستانی پہلوان اور اولمپک میں تمغہ جیتنے والی ہندوستان کی چوتھی خاتون بن گئیں ۔گلاسگو کامن ویلتھ گیمز میں جس کا انعقاد سال 2014 میں ہوا، ساکشی نے کوارٹر فائنل جیتا ، اس کے بعد اپنی شاندار کارکردگی کی بدولت انہوں نے سیمی فائنل میں کینیڈا کے خلاف 3-1 سے فتح حاصل کی ۔ فائنل مقابلے میں نائجیریا کی ایمنیٹ ساکشی کے مدمقابل تھیں ، لیکن قسمت نے یہاں ان کا ساتھ نہ دیا اور وہ فائنل میں اپنی حریف سے شکست سے دوچار ہوگئیں۔ ساکشی کو اس مقابلے میں سلور میڈل پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ تاشقند میں عالمی چیمپئن شپ کا ستمبر 2014 میں انعقاد ہوا۔ اس مقابلے میں ساکشی کوارٹر فائنل سے ہی باہر ہوگئیں، لیکن وہ حریف ٹیم سے 16 راؤنڈ تک مقابلہ میں ڈٹی رہیں۔ایشین چیمپئن شپ کا 2015 میں دوحہ میں انعقاد ہوا۔اس مقابلہ میں 60 کلوگرام زمرے کے 5 راؤنڈ ہونے تھے ۔ ساکشی ملک نے اپنی بہترین پرفارمینس دکھاتے ہوئے 2 راؤنڈ جیتے اور تیسری پوزیشن حاصل کرکے کانسہ کا تمغہ حاصل کیا۔ریو اولمپکس میں جانے کے لیے ساکشی کو مئی 2016 میں استنبول میں ورلڈ اولمپک کوالیفائنگ ٹورنامنٹ میں حصہ لینا تھا۔ یہاں ساکشی نے چین کی ژانگ لین کو شکست دے کر ریو اولمپکس کے لیے اپنا راستہ ہموار کیا۔ اولمپکس میں اس نے پہلے سویڈن کے خلاف میچ جیتا، پھر مالڈووا کے خلاف میچ جیتا۔ اس کے بعد ساکشی نے کرغزستان کی آئسولو ٹینی بیکووا سے مقابلہ کیا جس میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں کانسہ کے تمغہ پر اکتفا کرنا پڑا۔ اولمپک تمغہ جیتنے والی ساکشی ملک ایشین چیمپیئن شپ میں مستقل طور پر ایک مستقل دعویدار رہی ہے ، جس نے 2015 اور 2019 کے درمیان تین کانسہ کے تمغے اور ایک چاندی کا تمغہ جیتا ہے ۔کشتی ان کا پیشن بن گیا ہے جس کی وجہ سے اب ان کے کمرے میں سونے ، چاندی اور کانسہ کے تمغوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے ۔ ساکشی ملک نے عظیم ریسلر گیتا پھوگٹ کو اپنی زندگی میں اپنا رول ماڈل مانتی ہے ، وہ ہمیشہ ان کے نقش قدم پر چلیں ۔ساکشی ملک کو سال2016 میں ہندوستان کاکھیلوں کا سب سے بڑا اعزاز راجیو گاندھی کھیل رتن اور پھر 2017 میں ہندوستان کا چوتھا سب سے بڑا قومی اعزاز پدم شری سے سرفراز کیا گیا۔