اودھ کا مہجری ادب پر دو روزہ قومی سمینار کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر
لکھنؤ۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی اشتراک سے شعبۂ اردو لکھنؤ یونیورسٹی کے مسعود حسن رضوی ادیب ہال میں دو روزہ قومی سیمینار بحسن و خوبی اور کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔دوسرے روز چار مقالاتی دور اور اختتامیہ اجلاس منعقد ہوا ہے۔ جس میں اردو ادب کے دانشوروں نے ۱۸ مقالے پڑھے۔مقالوں میں مہجری ادب کی مختلف جہات کا احاطہ کیا گیا ۔ مقالہ نگاروں نے قرۃ العین حیدر، خدیجہ مستور، عارف نقوی،افتخار عارف، احسن فاروقی، علی سردار جعفری،جوش ملیح آبادی ، بادشاہ واجد علی شاہ وغیرہ کے ہجرت کے کرب کے منہاج کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
سیمینار میں عائشہ صدیقی نے ایک نیا سوال اٹھایا کہ اگر کسی تخلیق کار نے ہجرت نہیں کی اور تخیل کے زور پر ہجر کو سمجھا ہے تو اس کا ادب دائرۂ مہجری میں ہوگا یا نہیں۔صدر شعبۂ اردوپروفیسر عباس رضا نیر نے کہا کہ ابھی اس اصطلاح کی مزید وضاحت ہونا ہے اور اردو ادب میں یہ پہلا موقع ہے کہ اس موضوع پر اہل دانش بے لاگ تبادلۂ خیال کر رہے ہیں۔ ڈاکٹرصبیحہ انور نے قرۃ العین حیدر اور الطاف فاطمہ ،رفیق حسین اور نیر مسعود کا ذکر کیا۔یہ بھی معرض بحث میں آیا کہ نیر مسعود نے ایک کمرے سے دوسرے کمرے کے ہجر کو محسوس کیا اور اس کو اپنی تخلیق کا حصہ بنایا ،اس کرب کو کس خانہ میں رکھا جائے گا۔ ادیب رئیس حسین نے مہجری ادب کی ترکیب کو انوکھی چیز تصور کیا۔شعبۂ فارسی کے پروفیسر عمر کمال الدین نے ہندوستان کے فارسی گو شعرأ میں ہجر کی کیفیات کا تفصیل سے ذکر کیا ۔ شعبہ ٔ اردوکے استاد ڈاکٹر فاضل احسن ہاشمی نے نقل مکانی اور ہجرت کو الگ الگ رنگ میں دیکھا اور اس کے رنج و غم کو منقسم بھی کیا۔انہوں نے کرب اور ہجر کے جذبات کی ترجمانی کو مہجری ادب سے تعبیر کیا۔
پروفیسر احمد عباس نے اودھ میں آنے والے شعرأ کو بھی مہجری ادب کے ذیل میں دیکھا۔ خورشید انوررومی نواب نے اودھ کے مہجری اودھ میں واجد علی شاہ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔اردو شاعری میں ہجرت کے تصورات کو ڈاکٹر جان نثار عالم نے بحث کا موضوع بنایا۔سبط حسن نقوی نے ہجرت کی تعریف کا تعین کرنے کی کوشش کی اور ہجرت میں واپسی کے عنصر کے نہ پائے جانے کا ذکر کیا۔ڈاکٹر اجے سنگھ نے مہجری ادب میں ہندو شعرأ کا تذکرہ کیا۔ڈاکٹر یاسر جمال نے افتخار عارف کی مہاجرت پر سیر حاصل بحث کی۔’رخصت اے زنداں‘ کے حوالے سے علی ظفر نے ہجر کے رنگوں کو روشن کیا۔اختتامی اجلاس و شعبۂ فارسی کے صدر پروفیسر عارف ایوبی نے کہا کہ فارسی ادب میں تو ہجرت کے رنگ ادبی سطح پر آشکار ہیں اور اب اردو والوں نے بھی اس طرف قدم رکھا یہ خوش آئند ہے۔ شعبۂ عربی کے صدر پروفیسر مشیر الحسن صدیقی نے عربی ادب میں ہجرت کے تصور کے سلسلہ سے بات رکھی۔مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر شبنم رضوی،ڈاکٹر مجاہد الاسلام،ڈاکٹر شجاعت پروین، ،ڈاکٹر رویداضمیر، ڈاکٹر شاہد رضا، اطہر حسین، بشریٰ صدیقی،حمیرہ عالیہ، جہاں آرا سلیم،ڈاکٹر منتظر مہدی،ڈاکٹر عبید الرحمان، فیض حمیدی، محمد حسن،عقیل احمد، فیروز عباس ،محمد عباس،ڈاکٹر نصرت فاطمہ، وغیرہ نے پر مغز مقالے پڑھے۔
ڈاکٹر فاضل احسن ہاشمی نے بڑی چابکدستی کے ساتھ نظامت کے فرائض انجام دئے اور سیمینار میں سوالات ابھارنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سیمینار میں عذرا انجم، عاشق حسین ، انیس اشفاق، محمد جوادمحمد فیصل،تنظیم حیدر،انم آصف ، ثنا ، عارفہ احمد سمیتمعزز حضرات، ادب دوستوں اور کثیر تعداد میں طلبہ اور طالبات نے شرکت کی۔
المزيد من القصص
پٹنائک کاغذ کی مدد کے بغیر اوڈیشہ کے اضلاع کے نام بتائیں: مودی
کانگریس۔ سپا کا کردار رام اور ملک مخالف کا:یوگی
کانگریس چھوڑنے والے لیڈر کا انکشاف ‘شہزادے ’ کا ارادہ رام مندر پر سپریم کورٹ کےفیصلہ کو بدلنے کا: مودی