Kaumikhabrein.com

ہندی خبریں، ہندی میں تازہ ترین خبریں بریکنگ نیوز اور تازہ ترین ہیڈ لائن

بابر میں نظر آتی ہے کوہلی کی جھلک: موڈی

نئی دہلی۔(یو این آئی) آسٹریلیا کے سابق کرکٹر اور کوچ ٹام موڈی نے کہا ہے کہ انہیں پاکستانی کپتان بابر اعظم میں ہندوستانی لیجنڈ وراٹ کوہلی کی جھلک نظر آتی ہے ۔موڈی نے سٹار اسپورٹس کے ایک پروگرام میں کہا ‘‘وہ مجھے کافی حد تک وراٹ کوہلی کی یاد دلاتے ہیں۔ جس طرح سے وہ روایتی کرکٹ شاٹس کھیلتے ہیں۔

لگتا ہے کہ وہ کھیل کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، پڑھتے ہیں جو کوہلی نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں کیا ہے ۔ وہ رنز کا پیچھا بھی بہت اچھے طریقے سے کرتے ہیں، جیسا کہ وراٹ کوہلی کئی سالوں سے کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ‘‘دونوں میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ وراٹ کا ایشیا کپ بابر اعظم سے بہتر ہوگا، لیکن وہ دونوں برابر کے دباؤ میں ہوسکتے ہیں اور دیکھنے میں مزہ آئے گا۔’’سابق ہندوستانی کرکٹر سنجے منجریکر نے بھی بابر کی تعریف کی، حالانکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طویل عرصے تک اپنی کارکردگی کو برقرار رکھنا ہی کوہلی اور سچن تندولکر جیسے کھلاڑیوں کو عظیم بناتا ہے ۔منجریکر نے کہا ‘‘تندولکر اور وراٹ کوہلی جیسے کھلاڑیوں کا تقریباً 10-15 سال کا کیریئر رہا ہے اور جب بھی کوئی ابھرتا ہوا ستارہ آتا ہے ، تو اس کا موازنہ ان کھلاڑیوں سے کیا جاتا ہے جو طویل عرصے تک دوڑ میں رہے ۔ بعض اوقات یہ تھوڑا سا غیر منصفانہ ہوسکتا ہے لیکن ان دونوں لڑکوں کی عظمت یہ ہے کہ وہ طویل عرصے تک ایک ابھرتے ہوئے کھلاڑی کی بہترین کارکردگی کی سطح کی کرکٹ کھیلتے ہیں۔بابر اور کوہلی 2 ستمبر کو ہندوستان پاکستان ایشیا کپ کے میچ میں آمنے سامنے ہوں گے ۔ اگر ہندوستان اور پاکستان ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچتے ہیں تو دونوں ٹیمیں تین بار آمنے سامنے ہو سکتی ہیں۔دریں اثنا، موڈی نے کہا کہ بابر بھی کپتانی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا مقابلہ کر رہے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہو جائیں گے ۔موڈی نے کہا ‘‘کسی بھی ایشیائی ٹیم کی کپتانی بہت مشکل ہوتی ہے ۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دیتے ہیں۔ جب آپ کوئی ایسا قدم اٹھاتے ہیں جو اس وقت درست نہ ہو تو اچانک بہت سے ماہرین آپ پر انگلیاں اٹھانا شروع کردیتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ ابھی بھی کپتانی کے بڑھتے ہوئے دباؤ سے نبرد آزما ہے ۔’’انہوں نے مزید کہا ‘‘وہ لگاتار بہتر ہوتے جائیں گے ۔
ان کے آس پاس کئی تجربہ کار کھلاڑی بھی ہیں جو کپتانی کا رول ادا کرچکے ہیں، چاہے وہ فرنچائز کرکٹ میں ہوں یا ان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس کا فائدہ اٹھائیں گے ’’۔