ایس وی یونیورسٹی میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تعاون سے سمینار
حیدرآباد۔(یواین آئی)کینڈا کے مشہور ادیب وشاعر ڈاکٹر تقی عابدی نے علامہ اقباؔ ل کے کلام کے مختلف پہلو پراظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اقبال ؔ کا پیغام تمام عالم کے لیے ہے۔ اقبالؔ کا نعرہ ’’آدمیت احترام آدمی‘‘ ہے۔ آج کے گلوبل ولیج کے اس پُر آشوب دور میں اقبالؔ کا کلام عزت نفس سے زندگی بسر کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ان کا کلام فرد سازی، قوم سازی اور انسان سازی کا محور ہے ۔ اقبالؔ مغرب کی ذہنی غلامی سے آزاد ہیں مگر وہ مشرق میں بھی اسیر نہیں۔ آندھراپردیش کی سری وینکٹیشورا یونیورسٹی تروپتی (ایس وی یونیورسٹی )کے شعبہ اردو کی جانب سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تعاون سے ’’اقبال کے کلام کی عصری معنو یت‘‘ کے موضوع پر سمینار منعقد کیاگیا۔
اس سمینار کے ڈائرکٹر پروفیسر سید ستار ساحر صدر شعبہ اردو رہے۔سمینار کے افتتاحی اجلاس سے اپنا سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر تقی عابدی نے مزید کہا کہ علامہ اقبالؔ کے مذہبی، سیاسی، سماجی اور اخلا قی افکار ہمارے لئے معنویت رکھتے ہیں۔علامہ اقبالؔ کو کسی نے اسلامی شاعر، کسی نے ملّی شاعر کسی نے قومی شاعر، کسی نے فلسفی شاعر کہا ہے یہ سب جزوی طور پرصحیح ہیں مگر اقبال ان سب کا مجموعہ آفا فی شاعر ہیں جس کو آفاق کی اشرف المخلوقات انسان سے سرور کا رہے۔یونیورسٹی کے سینیٹ ہال میں افتتاحی اجلاس کا انعقاد عمل میں آیا جس میں قومی اور بین الاقوامی جامعات کے اسکالر اور پروفیسر ز نے شرکت کی۔اس افتتاحی اجلاس میں پانچ کتابوں .1مجلّہ نوائے اقبال، مرتبہ پروفیسر ستار ساحرؔ ،.2ادبیات ویلور۔ڈاکٹر راحی فدائی،.3 اردو ادب میں قومی یکجہتی کے عناصر۔ڈاکٹر سید منیر محی الدین،4رائلسیما کے منتخب شعرا۔ڈاکٹر سید سلطان معین الدین حبشی،.5 نقد ساحرؔ ۔پروفیسر ستار ساحرؔ ۔کی رسم رونمائی انجام پائی۔اس اجلاسی کا اختتام ڈاکٹر امین اللہ اسسٹنٹ پروفیسر ایس وی یونیورسٹی کے ہدیہ تشکر پر ہوا۔سمینار کے ڈائرکٹر پروفیسر ستار ساحر صدر شعبہ اردو نے سمینار کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس موضوع کے انتخاب کا اصل مقصد نئی نسل کو علامہ اقبالؔ کے افکار و نظریات کی عصری معنویت کی اگہی فراہم کرنا ہے۔
اقبال کو خاص عہد کے دائرے میں محدود نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے مزید یہ کہا کہ بدلتے عہد کے ساتھ ساتھ علامہ کے اشعار کی معنویت بھی بڑھتی جائے گی۔ سمینار کا آغاز شہادت علی کی قراتِ کلام پاک سے ہوا اور نعت شریف بھی پڑھی گئی۔ ترانہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ فردوس، ریشماء، ثمرین اور شاہن نے پیش کیا۔ مہمانانِ کا تعارف ڈاکٹر محمد نثار احمد اسسٹنٹ پروفیسر نے پیش کیا۔اس اجلاس کے مہمان خصوصی پروفیسر وی۔ وی راجندرپر ساد (وائس چانسلر آف یس۔وی۔ یو تروپتی) ،اعزاز ی مہمان پروفیسر فاطمہ پروین (سابق وائس پرنسپال جامعہ عثمانیہ حیدرآباد)،پروفیسر جی۔ ساواریا پرنسپال ا یس۔وی کالج آف آرٹس تروپتی اور ڈاکٹر تقی عابدی (شاعر و ادیب کینڈا)تھے۔یونیورسٹی کے وائس چانسلر راجندر پرساد نے اپنے خصوصی خطبہ میں کہا کہ ہندوستانی زبانوں میں خاص کر طنز و مزاح ،مو سیقت اور غنائیت کے حوالے سے اردو سب سے زیادہ سرمایہ والی زبان ہے۔انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال کے کلام کی امتیاز ی حقیقت انسانیت کو فروغ دینا ہے۔بعد ازاں مشاعرہ منعقد ہو ا جس کی صدارت پروفیسر سجاد حسین (سابق صدر شعبہ مدارس یونیورسٹی)نے کی اور نظامت کے فرائض سمینار کے ڈائرکٹر پروفیسر ستار ساحر نے انجام دیئے۔ ڈاکٹر تقی عابد ی ،دوہہ قطر کے سید فیاضی بخاری اور ریاستی سطح پر مسعود سراج شاہ مدار عقیل، ناظم ترجیو، محمود شاہد، امام قاسم ساقی، رحمت اللہ اورشعبہ کے تمام اساتذہ نے اپنا کلام پیش کیا۔اگلے دن پہلے اجلاس کا آغاز ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر عبدالاحد (سابق صدر شعبہ بنگلور یونیورسٹی) اور پروفیسر سید خلیل احمد (سابق معاون صدر شعبہ کوئمپویونیورسٹی، شموگلہ)، پروفیسر حمید اکبر (سابق صدر شعبہ گلبرگا یونیورسٹی) ’’عصر حاضر میں تصوف کی معنویت۔ کلام اقبالؔ کے حوالے سے‘‘ پروفیسر سید شاہ مدار عقیل (دھارواڑ یونیورسٹی کرناٹک) تلمیحات اقبالؔ کی عصری معنویت کے موضوع،. ڈاکٹرقدہر ناظم سر گروہ (داھڑواڑ کرناٹک)،’’کلام اقبالؔ کے عصری معنویت اقبال کے تعلیمی نظریات کے حوالے سے‘‘ پروفیسر رفعت انساء کلام اقبالؔ میں تصور نسواں کی عصری معنویت،.5ڈاکٹر عطااللہ سنجری (شنکراچاریہ ینورسٹی کیرل)’’عصر آفرین اقبال‘‘کے موضوعات پر مقالے پیش کئے۔ ہر اجلاس کاآغاز علامہ اقبالؔ کی غزل سے ہوااور ہر اجلاس میں سوالات کا وقفہ دیا گیا جس میں مختلف پہلوں پر کئی سوالات کئے گئے۔سید خلیل احمد نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ اقبال کی شاعری زندگی کی تابناکی اور حرکت و عمل کی تفسیر ہے۔دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر سجاد حسین نے کی۔ پروفیسر حمید اکبر اور کنوینر ڈاکر نثا احمد اسسٹنٹ پروفیسر ایس وی یونیورسٹی نے مقالے پیش کئے۔ ڈاکٹر شکیلہ گوری خان (اسسٹنٹ پروفیسر داھڑواڑ ینورسٹی کرناٹک)’’اقبال کے کلام کی عصر معنویت‘‘،ڈاکٹر منظور دکنی (اسسٹینٹ پروفیسر گلبرگہ) ’’اقبالؔ کے کلام فنی معنویت‘‘ ڈاکٹر عرشیہ جبیں (اسسٹنٹ پروفیسر سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد) ’’محاسنِ کلامِ اقبال کی معنویت‘‘،ڈاکٹر سید الدین (اسسٹنٹ پروفیسر اسلامیہ وانم باڑی ٹامل ناڈو) ’’علامہ اقبالؔ اور توحید اسلام‘‘.5ڈاکٹر سید رحمت اللہ نے اقبالؔ کے کلام کی عصری معنویت کی چند جھلکیاں‘‘کے موضوعات پر مقالے پیش کئے۔پروفیسر سجاد حسین نے اپنے صدارتی خطبہ میں مقالہ نگاروں کو مبارکباد دی اور کہا کہ اقبال کائنات زندگی میں ارتقا کے قائل ہیں۔پروفیسر حمید اکبر نے صدارتی خطبہ میں کہا کہ اقبال کا نظریہ خودی تصور ارتقا اور عالم گیرانسان دوستی، پھر ان مقاصد کے لئے ایک آفاقی انقلاب کا تخیل سب کا تعلق ان کی مطلوب اسلامی نشاۃ ثانیہ سے ہے۔تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر بشیر احمد تابش (سابق صدرشعبہ اردو ایس وی یونیورسٹی) اور پروفیسر سید شاہ مدار عقیل نے کی ۔ پروفیسر شاہ مدار نے اپنے صدارتی خطبہ میں مقالہ نگاروں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اقبال کا عہدفی الحقیقت دنیا وی تاریخ علم وفن کا ایک نہایت درخشاں باب تھا اس اجلاس کا اختتام ڈاکٹر کے امتیاز کے ہدیہ تشکر پر ہوا۔چوتھے اجلاس میں بھی مقالے پیش کئے گئے۔ اس اجلاس کی صدارت پروفیسر محمد انورالدن (سابق صدر شعبہ اردوحیدرآبا د سنٹرل یونیورسٹی) اور پروفیسر ناظم سرگردہ (سابق صدر شعبہ کوئمپو ینورسٹی شموگا)نے کی۔پروفیسر ناظم سر گردہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مقالہ نگار نے تحقیقی صلاحیتوں سے سچائیوں کی نئی دریافت کیا ہے اُن میں نئی معنویت اور تہہ داری پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر رفعت انساء نے علامہ اقبال کے افکار کے متعلق کہا کہ وہ ہر حال میں حقوق انسان کی حفاظت چاہتے تھے۔ڈاکٹر منیر محی الدین کے یہ تشکر پر اجلاس اختتام پزیر ہوا۔ پروفیسر محمد انورالدین نے اپنے خصوصی خطبہ میں سمینار کے ڈائرکٹر پروفیسر ستارساحرکو مبارکباد پیش کی۔دیگر مقررین نے بھی خطاب کرتے ہوئے کہاکہ علامہ اقبالؔ کی غیر معمولی شخصیت، افکار و نظر یات اور فنی خصوصیات پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور ہزار وں مقالات و مفامین صفحہ قرطاس پر بکھرے ہوئے ہیں ۔علامہ اقبالؔ کی زندگی شاعری افکار و تصورات کی تو صحیح و تعبیر اور تفہیم و تفسیرپر دنیا کی بیشتر زبانوں میں ایک بڑا ذخیرہ کتب و جود میں آچکا ہے یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر دنوں دن دانشور اقبال کے فکر و نظر کی قبولیت بڑھتی جارہی ہے اور آج علامہ اقبال ایک اسکول آف ٹھاٹ یعنی مختلف نظریات کی حیثیت رکھتے ہیں۔
المزيد من القصص
ہم ہندوستان میں سات کروڑ گھر بنا رہے ہیں: مودی
پٹنائک کاغذ کی مدد کے بغیر اوڈیشہ کے اضلاع کے نام بتائیں: مودی
کانگریس۔ سپا کا کردار رام اور ملک مخالف کا:یوگی