Kaumikhabrein.com

ہندی خبریں، ہندی میں تازہ ترین خبریں بریکنگ نیوز اور تازہ ترین ہیڈ لائن

ورلڈ کپ کیلئے انڈیا جانے کا فیصلہ شاہد آفریدی نہیں حکومت کرے گی:نجم سیٹھی

اسلام آباد۔ایک ایسے وقت میں جب رواں سال ہونے والے ایشیا کپ سے متعلق پہلے ہی ایک غیر یقینی صورتحال تھی پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین نجم سیٹھی کے انڈین میڈیا کو دیے اس حالیہ بیان نے سرحد پار سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کردیا ہے۔انڈیا میں جہاں اُن کے ورلڈکپ میں شرکت سے متعلق بیان پر تنقید ہو رہی ہے وہیں پاکستان میں بھی ان کے اس بیان پر ملا جُلا ردعمل سامنے آیا۔ ایک طرف کرکٹ شائقین نجم سیٹھی کو سراہتے نظر آئے کہ ان کا انڈیا نہ جانے کا فیصلہ انصاف پر مبنی ہے جبکہ دوسری جانب سابق پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی نے کہا کہ ’ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا بلکہ بچوں کو کہنا چاہیے تھا کہ وہ جا کر کھیلیں اور ورلڈ کپ جیت کر آئیں۔

پی سی بی کے سربراہ نجم سیٹھی نے ایسا سخت موقف کیوں اپنایا، ایشیا کپ اور ورلڈکپ سے متعلق ان کی ٹیم کو لے کر کیا توقعات ہیں۔ ان سب سوالوں کے لیے بی بی سی نے ان سے خصوصی گفتگو کی ہے۔بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’ورلڈ کپ کے لیے انڈیا جانے کا فیصلہ شاہد آفریدی کا نہیں اور نہ ہی یہ جے شاہ یا میرا ہے۔ یہ فیصلہ اُس جانب انڈین حکومت کا ہے اور اِدھر پاکستانی حکومت کا ہے۔‘نجم سیٹھی کے مطابق سکیورٹی کے خدشات ہی وہ واحد وجہ ہے جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ’اگر پاکستانی حکومت نے کہا کہ آپ جائیں ورلڈ کپ کھیلنے تو ہم ضرور جائیں گے۔‘اس بیان کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ انڈیا نے گذشتہ سال اکتوبر میں ہی پاکستان کو دو ٹوک جواب دے دیا تھا کہ وہ سکیورٹی خدشات کے باعث ایشیا کپ کھیلنے پاکستان نہیں آئیں گے۔پاکستان کی جانب سے اس فیصلے کی بھرپور مذمت کی گئی اور کرکٹ بورڈ نے اس پر خوب احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔ جب اس سب سے بات نہیں بنی تو میڈیا میں چند ماہ قبل ’ہائبرڈ ماڈل‘ کا شور مچنے لگا۔نجم سیٹھی نے میڈیا انٹرویوز میں اس کی وضاحت کی اور بتایا کہ یہ ماڈل اس تمام مسئلے کے حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔اس ماڈل کے تحت ٹورنامنٹ کے شروع کے چار یا پانچ میچیز پاکستان میں کھیلے جائیں گے جس کے بعد تمام ٹیمیں اپنا بوریا بسترا گول کر کے ایک نیوٹرل وینیو پر چلی جائیں گی اور ٹورنامنٹ کے بقیہ میچز وہاں منعقد ہوں گے۔نجم سیٹھی کے مطابق انڈیا کواس صورت میں پاکستان کا دورہ نہیں کرنا پڑے گا اور بطور میزبان پاکستان بھی ایشیا کپ کے چند میچز کی میزبانی کرنے کا اہل ہوجائے گا۔پی سی بی چیئرمین نے گذشتہ کئی دنوں میں درجنوں انٹرویوز دیے ہیں جن میں سے زیادہ تر انڈین میڈیا کو دیے گئے۔ اس حوالے سے میں نے نجم سیٹھی سے پوچھا کہ اتنے سارے انٹرویوز کا مطلب کہیں یہ تو نہیں کہ جن سے آپ براہ راست بات کرنا چاہتے ہیں وہاں سے آپ کو کوئی خاطر خواہ جواب نہیں مل رہا؟نجم سیٹھی کا اس متعلق کہنا تھا کہ ’دس روز قبل میری بی سی سی آئی کے سربراہ جے شاہ کی درخواست پرایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کے نائب صدر پنکج کِھمجی سے ملاقات ہوئی ہے۔‘واضح رہے کہ نجم سیٹھی دبئی میں ہونے والی اس ملاقات کا تذکرہ تو مختلف انٹرویوز میں کر چکے ہیں لیکن ملاقاتی کا نام پہلے نہیں ظاہر کیا تھا۔نجم سیٹھی کے مطابق پنکج کھمجی کے ساتھ تفصیل سے ہائبرڈ ماڈل کی تفصیلات شیئر کی گئی تھیں جو انھیں پسند بھی آئیں۔ نجم سیٹھی کے مطابق پنکج کھمجی کی طرف سے مثبت ردعمل آیا ہے اور انھوں نے کہا کہ وہ جے شاہ کے ساتھ جا کر اس پر تبادلہ خیال کریں گے۔’انھوں نے کہا کہ وہ 15 مئی کو رابطہ کریں گے۔ میں ابھی انتظار کر رہا ہوں کہ انھوں نے کیا فیصلہ کیا ہے۔‘نجم سیٹھی کے مطابق ہائبرڈ ماڈل گذشتہ ماہ ایشین کرکٹ کونسل کی میٹنگ میں پیش کیا گیا تھا اور ایشیائی ممالک کو اصولی طور پر اس پر اعتراض نہیں تھا بلکہ انھیں اعتراضات اس بات پر تھے کہ یہ کیسے ممکن ہو پائے گا؟ آنا جانا کتنا زیادہ ہوگا؟ پروڈکشن یونٹس کتنے استعمال ہوں گے؟جب پی سی بی چیئرمین سے یہ پوچھا گیا کہ کیا یہ اعتراضات دور کردیے گئے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس میٹنگ کے بعد ایک جامع پلان تمام رکن ممالک کو دیا گیا تاکہ یہ اعتراضات دور کیے جاسکیں۔ایشیا کپ کے لیے ممکنہ نیوٹرل وینیوز کے ناموں میں سری لنکا، متحدہ عرب امارات، بنگلہ دیش اور یہاں تک کہ لندن کا بھی نام میڈیا رپورٹس کی زینت بنا ہوا ہے۔اس حوالے سے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’مجھے احساس ہے کہ سری لنکا کی جانب سے اے سی سی پردباؤ ہے کہ نیوٹرل جگہ کے لیے سری لنکا کا انتخاب کیا جائے۔‘متحدہ عرب امارات کے حوالے سے نجم سیٹھی کے مطابق سری لنکا کو اعتراضات تھے کہ ستمبرمیں وہاں بہت گرمی ہو گی اور کھلاڑیوں کے لیے ایک روزہ میچز کھیلنا کافی مشکل ہوگا۔نجم سیٹھی کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’اسی موسم میں یہاں پہلے بھی ایشیا کپ اور آئی پی ایل منعقد کروائے جا چکے ہیں اور یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔‘پی سی بی چیئرمین کے مطابق کون سے ملک میں میچز کا انعقاد کرایا جاتا ہے؟ اس فیصلے میں سب سے اہم ’گیٹ منی‘(میچ کی ٹکٹوں کی فروخت سے آنے والی رقم ) ہے اور یہ رقم ہمیشہ میزبان ملک کو ملتی ہیں جو اس مرتبہ پاکستان ہے۔

سری لنکا میں اگر میچیز کھیلے جاتے ہیں تو گیٹ منی کافی کم ہو گی۔ ان کا ماننا ہے کہ دبئی اور لندن سے ’گیٹ منی‘ کافی بڑی تعداد میں اکٹھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ اگر متفقہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ میچیز سری لنکا میں ہی ہونے ہیں اور ’ہمیں وہ اس کا معاوضہ دے دیتے ہیں تو اس پر بھی بات ہوسکتی ہے۔‘

پاکستان کی جانب سے مختلف آپشنز کے سامنے آنے پر کئی کرکٹ کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کی انٹرنیشنل سٹیج پر پوزیشن کمزور ہے اور شاید اس لیے وہ اور کسی بھی سمجھوتے کے لیے تیار ہے۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’ہماری پوزیشن کمزور نہیں ہے انڈیا کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ آپ اس کو اس نظر سے دیکھیں کیونکہ اگر ہم کمزور ہیں تو اس کا مطلب تمام آئی سی سی ممبرز کی پوزیشن کمزور ہے اور صرف ایک انڈیا ہے جو سب سے مضبوط ہے۔‘