لکھنؤ:(یواین آئی) عام انتخابات کے پیش نظر اتحاد کے لئے کانگریس اور دیگر سیکولر پاٹیوں سے بات نہ بننے کے بعد اترپردیش کے سابق وزیر شیوپال سنگھ یادو کی قیادت والی پرگتی شیل سماج وادی پارٹی لوہیا(پی ایس پی ایل) نے منگل کو ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی اور راشٹریہ کرانتی سماجوادی پارٹی سے ہاتھ ملایا ہے۔اگرچہ ان سیاسی پارٹیوں نے اتحاد کے بعد اپنے پارلیمانی سیٹوں کے تعداد پر کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ لیکن سربراہوں کو پوری امید ہے کہ اسے جلد ہی حل کرلیاجائے گا ان تمام کے درمیان تینوں پارٹیوں نے اپنے مقصد کو واضح کرتےہوئے کہا کہ ان کا ہدف بی جے پی کو مرکز ی سیاست سے بے دخل کرنا ہے۔اتحاد کے اعلان کے بعد میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے پی ایس پی ایل سربراہ شیو پال سنگھ یادو نے کہا’’ کسان، نوجوان اور اقلیتوں کا بی جے پی کے ذریعہ استحصا ل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ میں نے سماجوادی، بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس سے سے اتحاد کی ہر ممکن کوشش کی لیکن بدقستمی سے ہم کامیاب نہیں ہوسکے۔انہوں نے دعوی کیا کہ مولانا توقیر رضا خان نے دیگر علماء کے ساتھ ان کی پارٹی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اتحاد میں شمولیت اختیار کی ہے۔شیوپال نے کہا میں بی جے پی سے مقابلے کے لئے سیکولر مورچے کی تشکیل کے لئے ہرممکن کوشش کر رہا ہوں اور متعدد نے اتحاد میں شمولیت بھی اختیار کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ ان کا مورچہ بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں کامیاب ہوگا۔پیس پارٹی کے ڈاکٹر ایوب نے کہا چھوٹی پارٹیاں مورچے کو اپنی حمایت دینے کے بجائے اپنی حصہ داری مانگ رہی ہیں۔ لیکن یہ کافی مایوس کن ہے کہ کچھ سیکولر پارٹیاں کنفیوژن پیدا کر رہی ہیں جو مورچہ کو کمزور کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو شکست دینے کے لئے متعدد پارٹیوں نے ہم سے ہاتھ ملایا ہے اور جلد ہی مزید پارٹیاں ہم سے جڑیں گی۔
کانگریس میں بھی پرینکا گاندھی نے مہان دل، جن ادھیکار پارٹی اور اپنا دل(کرشنا) کو اپنے ساتھ لیتے ہوئے ذات پر مبنی ووٹوں کو اپنے جانب کھینچنے کی کوشش کی ہے۔ لکھنؤ میں واقع ڈاکٹر گوند بلبھ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹڈیز ان رورل ڈیولپمنٹ کے ڈاکٹر ایس پی پانڈے کے مطابق اترپردیش ایک ایسی ریاست ہے جہاں ذات سیاست کا سب سے کاگر آلہ ہے۔ تکنیکی طور پر قومی سیاسی پارٹیوں کا چھوڑی پارٹیوں کو اپنے اندر شمولیت کا فیصلہ کافی حیرت انگیز ہے۔تکنیکی طور پر آپ انہیں چھوٹی پارٹیاں کہ سکتے ہیں لیکن یہ پارٹیاں گاؤں میں کافی اثر رکھتی ہیں۔ ان ذات پر مبنی ووٹروں کا جھکاو سیاسی جنگ میں کسی بھی پارٹی کے قسمت کا بنایا بگاڑ سکتا ہے۔ڈاکٹر پانڈے نے مزید کہتے ہیں کہ اگر آپ اترپردیش میں بی جےپی کے عروج کو دیکھیں تو اس کی کامیابی کا واحد راز صرف یہ تھا کہ اس نے چھوٹی سیاسی پارٹیوں سے ہاتھ ملایا، یہاں تک کہ قومی پیمانے پر بھی اس نے 30 چھوٹی پارٹیوں کا اتحاد بنا رکھا ہے۔ سیاسی میدان میں جہاں ذات کافی اہمیت کی حامل ہے اس طرح کے اتحاد کا ہونا وقت کا تقاضہ ہے۔یہ صرف چھوٹی پارٹیاں نہیں ہیں بلکہ کشواہا، شاکیہ، کچھار، کیوٹ، ملاح، نشاد، کشیپ، موریہ اورراج بھر ذاتیاں جو کافی پچھڑی ذاتیوں میں شمار کی جاتی ہیں سیاسی طور پر کافی حساس سمجھی جاتی ہیں۔گری انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اسٹڈیز(جی آئی ڈی ایس) کے نومتا پی کمار کےمطابق اترپردیش میں ذات ہی واحد عنصر ہے جس کی بنیاد پر لوگ ووٹنگ کے لئے باہر نکلتے ہیں۔ ان ذاتیوں کو نظر انداز کرنے کا مطلب اپنی پارٹی کے لئے شکست کے راستے کو ہموار کرنا ہے۔ لہذا بڑی پارٹیوں کی نظر میں ان چھوٹی پارٹیوں کی اہمیت کافی بڑھ گئ ہے۔
المزيد من القصص
ہم ہندوستان میں سات کروڑ گھر بنا رہے ہیں: مودی
پٹنائک کاغذ کی مدد کے بغیر اوڈیشہ کے اضلاع کے نام بتائیں: مودی
کانگریس۔ سپا کا کردار رام اور ملک مخالف کا:یوگی